Homeconomics Urdu
سوال 1 - زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی وجوہات پر روشنی
ڈالیں نیز بتائیں کہ اس حوالے سے کن احتیاطی تدابیر کواپنایا جاسکتا ہے؟
ج:
زچگی کے دوران ہونے
والی اموات کی وجوہات کئی عوامل پر منحصر ہوتی ہیں، جو عموماً ماں اور بچے کی صحت،
امن، اور توازن کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ یہاں کچھ وجوہات اور احتیاطی تدابیر کی
بنیادی معلومات فراہم کی جائیں گی:
وجوہات:
1.
صحتی مسائل: زچگی کے دوران، ماں کی صحتی حالت بہت اہم ہوتی ہے۔ کسی بھی
صحتی مسئلے، جیسے کہ چینی بیماری، دائیں، بلیڈ پریشر کی اضافہ، آسما، دل کے مسائل،
وغیرہ، کی بنا پر اموات کا سبب بن سکتا ہے۔
2.
جنسی امور: زچگی کے دوران جنسی تنقیدیں یا جنسی امور میں پیش آنے والی
کسی بھی خرابی کی بنا پر اموات کی شکایت ہو سکتی ہے۔
3.
غذائیں: غیر مناسب غذائیں کھانا یا غذائی کمی کی بنا پر اموات کا باعث
بن سکتا ہے۔ زچگی کے دوران درست غذائیں کھانا اہم ہوتا ہے تاکہ ماں اور بچے کی صحت
محفوظ رہے۔
4.
جسمانی زحمت: زیادہ تھکن، زیادہ جسمانی کام، یا جسمانی زحمت کی بنا پر بھی
اموات کا سبب بن سکتا ہے۔
5.
تنظیم نہ ہونے والی دوائیں: اگر کسی ماں کو ضرورت سے زیادہ دوائیں
استعمال کرنی پڑیں یا تنظیم نہ ہو تو اموات کا خطرہ بڑھتا ہے۔
احتیاطی تدابیر:
1.
ماں کی صحت کی دیکھ بھال: زچگی کے دوران منظم طبی معائنے اور مراقبت
کرنا اہم ہوتا ہے تاکہ ماں کی صحت محفوظ رہے۔ منظم طبی معائنے کرنا اور کسی بھی
صحتی مسئلے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر کی مشورے سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔
2.
صحیح غذائیں کھانا: صحیح اور متوازن غذائیں کھانا زچگی کے
دوران بہت اہم ہوتا ہے۔ ضرورت کے مطابق وٹامنز، معدنیات، پروٹین، کی مکملیت کو
پورا کرنا چاہئے۔
3.
جنسی تعلیم: جنسی تعلیم حاصل کرنا بہت اہم ہے تاکہ ماں کو اپنی جنسی صحت
کی دیکھ بھال کرنے کی معلومات ہو۔
4.
غذائی کمی کی پیشگوئی کرنا: زچگی کے دوران غذائی کمی کی صورت میں اپنے
ڈاکٹر کی مشورے سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ غذائی کمی کی پیشگوئی کی جا سکے۔
5.
جسمانی زحمت کا موازنہ: زیادہ تھکن اور جسمانی کام سے بچنے کے لئے
ماں کو کام کی میزانی کرنی چاہئے۔ زیادہ آرام اور استراحت لینا بھی مفید ہوتا ہے۔
6.
استراحت اور خواب: منظم استراحت اور کافی خواب لینا بھی اہم ہوتا ہے۔
7.
جنسی تعلیم: زچگی کے دوران جنسی تعلیم حاصل کرنا بہت اہم ہوتا ہے تاکہ ماں
اور پارٹنر کو جنسی امور کی احتیاط کی معلومات ہو۔
8.
استراحت کی پالن: بچے کی پیدائش کے بعد استراحت کی پالن کرنا اہم ہوتا ہے تاکہ
ماں کی جسمانی صحت کی بہتری ہو سکے۔
9.
تاثر کا مظاہرہ: زچگی کے دوران تاثر کا مظاہرہ کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنے
احساسات کو صحیح طریقے سے اظہار کرنا اور اپنے پارٹنر کی حمایت کرنا ضروری ہوتا
ہے۔
یہ تدابیر اموات کی
صورت میں امن وامان، ماں اور بچے کی صحت، اور زچگی کے دوران جود اور توازن کی
محفوظیت کے لئے اہم ہیں۔ اگر کسی بھی مسئلے کی صورت میں ڈاکٹر کی مشورے سے رجوع
کرنا کبیر اہمیت رکھتا ہے۔
سوال 2 ۔ ابتدائی دوسال میں بچے کی غذا کن اشیاء پر مشتمل
ہونی چاہیے؟ بیان کریں۔
ج:
ابتدائی دو سال میں بچے کی غذا میں درست تغذیہ اور صحت کے
لئے کئی اہم اشیاء شامل ہونی چاہئیں۔ نچلے فہرست میں کچھ اہم اشیاء کی بنیادی
معلومات دی گئی ہے:
1. دودھ یا دودھ کے منتخبات: بچوں کے لئے مادہ دودھ بہت
اہم ہوتا ہے۔ جب تک ممکن ہو، ماں کی دودھ پلایا جائے، لیکن اگر ماں کا دودھ نہیں
ملتا تو مناسب اشیاء سے بنا ہوا دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
2. مصرفی گندم کا آٹا: بچوں کو گندم کے آٹے کی
منتخبات، جیسے کہ دلیا، پھینی، چاول، روٹی وغیرہ، دینا چاہئیے۔
3. مصرفی دالیں اور پروٹین: دالیں، مثلاً مونگ، چنا،
مسور، دال ماش، اور پروٹین کی دیگر منتخبات بچوں کے لئے اہم ہیں۔
4. مصرفی سبزیاں اور پھل: پھل اور سبزیاں بچوں کے لئے
اہم آہار ہیں جو کہ وٹامنز، معدنیات، اور فائبر کی مکملیت فراہم کرتے ہیں۔
5. مصرفی غیرترش شربت: جیسے کہ دودھ، لسی، اناڑنا،
اور دیگر منتخبات، جو کہ بچوں کو معدنیات، کیلشیم، اور وٹامن D فراہم
کرتے ہیں۔
6. مصرفی میٹھائی:
بچوں کو مصرفی میٹھائی کی مقدار کو محدود رکھنا چاہئیے،
مثلاً شہد یا کھجور کی کھجوریں۔
7. پروٹین کی منتخبات: مصرفی پروٹین کی منتخبات
میں دودھ، دالیں، انڈے، مچھلی، مرغی، دھکن، اور دانے شامل ہیں۔
8. غذائیں سوزش کرنے والی اشیاء: بچوں کے لئے غذائیں سوزش
کرنے والی اشیاء کو محدود رکھنا چاہئیے، جیسے کہ مصرفی نمک، چینی، مصرفی چکلیٹ،
اور کھیل کرے گئے بسکٹس۔
9. مصرفی مکملیات:
بچوں کو مختلف مکملیات، مثلاً وٹامنز، آئرن، کیلشیم، اور
معدنیات کی مکملیت فراہم کرنی چاہئیے۔
10. مصرفی پانی:
بچوں کو کافی پانی پینے کی ترغیب دینا بہت اہم ہوتا ہے تاکہ
وہ ہمیشہ ہیدریٹ رہ سکیں۔
یہ اشیاء ابتدائی دوسال کے بچوں کے لئے صحت مند غذائی
روایات کی بنیاد ہیں۔ انہیں موزوں انداز میں ترتیب دینا اور بچے کی ضروریات کے
مطابق ان کی مقدار تعین کرنا بہت اہم ہے۔ بچے کی صحت کے لئے ایک معقول اور متوازن
خوراک کی پالن کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ابتدائی زندگی میں افزائش
اور نشوونما کے لیے اچھی غذا کی اہمیت ہوتی ہے اور اس کا بچوں کی طویل میعادی صحت
پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچوں کو پسندیدہ طریقے سے اچھی غذا کھلانا ضروری ہے۔
- ابتدائی 6 مہینے میں دودھ بچوں کے لیے مغذیات کا واحد ذریعہ ہے۔
- ماں کا دودھ ہر طرح کی مغذیات
فراہم کرتا ہے جس کی ایک بچے کو ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اینٹی باڈیز اور
دیگر حیاتی سرگرم اشیاء بھی فراہم کرتا ہے۔
- جن بچوں کو ماں کا دودھ نصیب نہیں
ہے، والدین کو چاہیے کہ بچے کی خواہش کے مطابق انہیں کم یا زیادہ شیر خوار کا
فارمولا پلائیں۔
6 تا 24 مہینے –
دودھ کی غذا سے آزادانہ طور پر متعدد غذائیں کھانے کی طرف منتقل ہونا
- اس مدت کے دوران، بچے جو صرف دودھ
والی غذا کھا رہے تھے، ان میں اب ترقیاتی تبدیلی ہوتی ہے اور وہ متعدد انواع
کی بالغ کی غذا کھانے لگتے ہیں۔
- ان میں اب یہ تبدیلی بھی آتی ہے کہ
وہ جہاں پہلے کھانے میں دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، اب خود سے کھانے کے لیے
کپ اور چمچہ کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔
- بچے کی عمر تقریبا 6 مہینے ہونے پر والدین کو چاہیے کہ انہیں ٹھوس غذا کھلانا
شروع کریں۔
- غذائیت بخش بچے کی غذا کنبہ کی غذا
کی ٹوکری سے گھر پر تیار کی جاسکتی ہے، اور اس میں اناج اور غلے، ترکاریاں،
پھل، انڈے، مچھلی، گوشت اور پھلی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
- آئرن کے استعمال کو بھی ضرور یقینی
بنائیں اور اس کے لیے بچے کو گوشت، مچھلی، انڈے کی زردی، جگر، اور گہرے ہرے
رنگ کی پتی دار ترکاریاں فراہم کریں۔
- والدین کو چاہیے کہ الگ الگ ذائقے،
بناوٹ اور رنگ کی غذا پیش کریں۔ اس سے بچوں کو غذاؤں کے بارے میں جاننے،
کھانے سے لطف اندوز ہونے میں مدد ملتی ہے اور یہ کھانے کے اچھی عادتوں کی
حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
- تغیر کے ابتدائی مرحلے میں، ماں کے
دودھ اور شیرخوار کے فارمولا سے زیادہ تر مغذیات کی فراہمی ہوجائے گی۔ اب چوں
کہ بچے زیادہ کھانے لگیں گے، اس لیے ٹھوس غذاؤں کے انواع اور ان کی مقدار کی
وجہ سے، انہیں کم دودھ کی ضرورت پڑے گی۔
- پہلے یوم پیدائش کے بعد، انواع و
اقسام کی غذائیت بخش غذاؤں کی معیاری غذا ایسی ہونی چاہیے کہ وہ بچوں کو
مطلوبہ مغذیات فراہم کریں۔ پرہیزی غذا کو تھوڑے تصرف کے ساتھ کنبہ کا کھانا
بنایا جاسکتا ہے۔
- دودھ اب مزید اصل غذا نہیں رہتا ہے
حالانکہ یہ صحت مند غذا کا حصہ بنا رہتا ہے۔
- ماؤں کو صلاح دی جاتی ہے کہ
وہ 2 سال اور اس سے زیادہ مدت تک اپنا دودھ پلاتی رہیں تاکہ
ان کے بچوں کو اینٹی باڈیز اور مغذیات حاصل ہوں۔
2 تا 5 سال
– کنبہ کے کھانے سے لطف اندوز ہونا
- اس عمر تک، بچوں کو کنبہ کے ساتھ
کھانا چاہیے۔ اس سے ایک ساتھ متوازن کھانے کا اشتراک کرنے کے علاوہ، بچے
والدین کی صحت مند کھانے کی عادتوں کو بھی اپناتے ہیں۔ کنبہ کے کھانے کے وقت
سے انہیں کنبہ کے معمول کو سیکھنے اور والدین - بچہ کی مواصلات کو ترقی دینے
میں مدد ملتی ہے۔
جو بچے ماں کا دودھ نہیں
پی رہے ہیں، ان کے لیے پسندیدہ دودھ کیا ہے؟
- 12 مہینے سے کم عمر کے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ
شیر خوار کا فارمولا پسندیدہ دودھ ہے۔ کم عمر کے بچوں کے لیے گائے کا دودھ
مناسب نہیں ہے۔
- 1 سال کی عمر کے بچے مکمل چکنائی والا تازہ گائے کا دودھ
یا مکمل چکنائی والے گائے کے دودھ کا پوڈر استعمال کرسکتے ہیں۔ والدین بھی
تبدیلی کے لیے دہی یا پنیر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ کم چکنائی والا دودھ 2 سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لیے مناسب ہے۔
- فارمولا دودھ ان لوگوں کے لیے
مناسب ہے جو آئرن سے بھرپور غذا کا کم استعمال کرتے ہیں، جیسے وہ لوگ جو
نباتی غذا کھاتے ہیں۔
- اگر کچھ بچوں کو گائے کے دودھ کی
پروٹین سے الرجی ہوتی ہے، تو انہیں خاص فارمولا کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اپنے
بچوں کو خاص فارمولا دینے سے پہلے والدین کو طبی صلاح لینی چاہیے۔
میرا 1 سالہ
بچہ اپنا کھانا اچھی طرح کھاتا ہے، اسے کتنا دودھ پینا چاہیے؟
- انواع و اقسام کی غذا پر مشتمل غذا
کے حصے کے طور پر، ایک دن میں 360 تا 480 ملی لیٹر دودھ 1 تا 5 سال کی عمر کے بچوں کی غذائی ضروریات کو پوری کرنے کے
لیے کافی ہے۔
- ناشتے کے وقت اور ہلکے ناشتے کے
اوقات میں دن میں 2 تا 4 بار چھوٹے کپ میں دودھ دیں۔ آپ متبادل کے طور پر دودھ سے
بنی دیگر اشیاء دے سکتے ہیں۔
- دودھ کیلشیم اور دیگر مغذیات کا
بھرپور ذریعہ ہے۔ تاہم، اگر بچہ بہت زیادہ دودھ پیتا ہے، تو اس سے دیگر قوت
بخش غذاؤں کی خواہش ختم ہوجائے گی اور کھانے کی صحت مند عادتوں کو تشکیل پانا
مشکل ہوجائے گا۔
- ٹوفو، کیلشیم کا اضافہ کردہ سویا
دودھ، یا گہرے ہرے رنگ کی پتی دار ترکریاں کیلشیم سے بھرپور غذا ہیں۔ اگر بچے
روزانہ اور مناسب مقدار میں ان غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں، تو انہیں اپنی
کیلشیم کی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے کم دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
میرے بچے کو کب دودھ
پلانے کی بوتلوں کا استعمال بند کردینا چاہیے؟
- بچوں کو 18 مہینے کی عمر ہونے تک دودھ پینے کی بوتلوں سے پینا چھوڑ
دینا چاہیے۔
- جو بچے بوتل استعمال کرنے پر مصر
رہتے ہیں، ان میں دانت سے متعلق جلدی سوراخ ہوسکتی ہے۔ وہ موٹے ہوسکتے ہیں۔
انہیں زیادہ دودھ پینے کی عادت ہوجاتی ہے اور انہیں دیگر غذا کھانے میں کم
دلچسپی رہتی ہے۔
- اپنے بچے کو تقریبا 8 تا 9 ماہ میں پینے کے لیے تربیتی کپ دیں اور پینے میں اس کی
مدد کریں۔ وہ چھڑک کر پی سکتا ہے نیز بعد میں بھی۔ اکثر بچے 1 سال کی عمر میں تربیتی کپ پی سکتے ہیں۔ اپنے پہلے یوم
پیدائش کے بعد، بوتل سے دودھ پینے کی اس کی عادت چھڑانا شروع کریں۔
میرا بچہ غذا کے معاملے
میں کافی تلاش کرتا ہے۔ کیا اسے "تنک مزاج کھانے والے" کا فارمولا دودھ
دینا بہتر ہے؟
- "تنک مزاج کھانے والا" کہلانے والا فارمولا متعدد
وٹامین، معدنیات یا چربیلے تیزاب وغیرہ کے ساتھ شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام
مغذیات ان تمام غذاؤں میں پاتی ہیں جنہیں ہم عام طور پر کھاتے ہیں۔ اس کے
برعکس، روز مرہ کی غذاؤں میں پائی جانے والی وہ تمام اشیاء جو ہمارے لیے مفید
ہیں، فارمولا دودھ میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں توانائی کی مقدار اور چینی
کی سطح باضابطہ فارمولا دودھ یا مکمل چکنائی والے گائے کے دودھ سے زیادہ ہوتی
ہیں۔
- اگر بچے غذا کے ایک خاص گروپ کو
کھانے سے مسلسل انکار کررہے ہیں، تو ان کے لیے یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ انہیں
مناسب مغذیات حاصل نہ ہوں۔ غذائی تکملات کے طور پر گائے کے دودھ کی جگہ
باضابطہ فارمولا دودھ دیا جاسکتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ روزانہ 480 ملی لیٹر سے زیادہ نہ پیئیں۔
- اپنے بچے کو غذا کے بارے میں جاننے
کا موقعہ دینا - انواع و اقسام کی غذائیں پیش کرنا، کھانے کے وقت غذا کے
انتخابات فراہم کرنا، اس کے ساتھ کھانا اس لیے ضروری ہیں تاکہ تنک مزاج کھانے
سے باہر آنے میں ان کی مدد کی جائے۔
- اگر والدین کو اپنے بچے کی غذا اور
افزائش کے بارے میں تشویش ہے، تو وہ طبی صلاح لے سکتے ہیں۔
سوال 3۔ کھانا پکانے کے مختلف طریقے اور ان کے مقاصد بیان
کریں۔
ج:
کھانا پکانے کے مختلف طریقے ہیں جو کہ مختلف
مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ نیچے کچھ اہم کھانا پکانے کے طریقے اور ان کے
مقاصد دیے گئے ہیں:
1. بھنائی یا پکائیں:
یہ سب سے عام طریقہ ہے جس میں کھانا بھنا کر یا پکا کر تیار
کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے کھانا پکتے وقت زیادہ مزیدار ہوتا ہے اور خوراک کو پختر
مواد اور تمغا کی مزید مقدار حاصل ہوتی ہے۔
2. تلنا یا فرائی کرنا: تلنے یا فرائی کرنے سے
کھانا کسی خاص زیتون یا گھی میں پکتا ہے۔ یہ طریقہ کھانے کی سطح کو کرسپی اور
گولڈن براؤن کرتا ہے۔
3. اُبالنا یا پکانا:
اس طریقے میں کھانا پانی میں ابال کر پکایا جاتا ہے۔ یہ
طریقہ اکثر سبزیوں، چاول، اور دالوں کو پکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
4. بھپنا یا اُبالنا:
اس طریقے میں کھانا اوپر کی جانب بھپ کر پکایا جاتا ہے۔ یہ
طریقہ خصوصاً میٹھائیوں، چاول، سبزیوں، اور گوشت کو پکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
5. میکروویو پکانا:
میکروویو اونٹھنے سے کھانا پکایا جاتا ہے جس سے کھانا جلدی
پکتا ہے۔ اس طریقے میں کھانا کی طرف سے توانائی کم ہوتی ہے۔
6. پکانے کے بغیر کھانا: یہ طریقہ فریش اور راو
خوراک کو شامل کرتا ہے جیسے کہ سلاد، سشیمی، یا سوشی۔
7. گرل کرنا:
یہ طریقہ خوراک کو دھواں دیتا ہے جس سے ایک خوشبودار دھواں
دار زائقہ حاصل ہوتا ہے۔ اس طریقے سے کھانے کا سواد بڑھتا ہے۔
8. بیکنگ یا پیکنگ:
اس طریقے سے کھانا پکانے کے لئے غذائی مواد کو پیکنگ میں
باندھ کر پکایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ خصوصاً بریڈ، کیکس، اور پائز کو پکانے کے لئے
استعمال ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے انٹرنیٹ کے اس موجودہ عہد
کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ذاتی کلنری اسکول تک رسائی حاصل ہے۔
تاہم جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ کا
استعمال زندگی کے ہر شعبے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اب ہر کسی کے انٹرنیٹ تک
رسائی ہے اس لیے یہ دھیان رکھنا بہت ضروری ہے کہ انٹرنیٹ پر درست معلومات کے ساتھ
غلط معلومات بھی بکھری پڑی ہیں اس لیے ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ یہاں دستیاب
معلومات ہم سب کو تھوڑا الجھن میں بھی ڈال سکتی ہیں۔
مدد کے لیے، ہم نے ان تراکیب کی ایک فہرست مرتب
کی ہے جو ہر باورچی کو کھانا پکانے کے تجربے کو کچھ زیادہ موثر اور ان کے بنائے
ہوئے کھانے کو زیادہ مزیدار بنانے کے لیے جاننا چاہیے۔
کبھی بھی پَین بہت زیادہ بھر کر مت پکائیں:
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ چکن بریسٹ کو آسانی
سے پین میں پکایا جاسکتا ہے، تو ایسا نہ کریں کیونکہ پین میں اتنی زیادہ مقدار میں
گوشت پکانا آپ کے پکوان کو خراب کرسکتا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ گوشت کی زیادہ مقدار کو
پین میں ڈال کر پکانا آسان ہے تو ہم آپ کو بتادیں کہ اس طرح پکانے کے عمل کے
دوران پین کے نیچے کی آنچ یکساں طور پر گوشت کو مطلوبہ حدت فراہم نہیں کرے گی جس
سے کھانے کے ذائقے کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور بدترین طور پر یہ صحت کے لیے بھی
خطرہ پیدا کرے گا۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اگر آپ چکن یا گوشت پکانے کا ارادہ رکھتے
ہیں تو اس کے لیے بڑا اور گہرا برتن استعمال کریں۔
سرخ گوشت کو کاٹنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے
چھوڑ دیں:
یہاں تک کہ بہترین گوشت بھی خشک ہو سکتا ہے اگر
اسے مناسب طریقے سے نہ سنبھالا جائے۔
اپنا اسٹیک پکانے کے بعد اسے کٹنگ بورڈ پر رکھ
دیں اور اسے کاٹنے سے پہلے تقریباً 5 منٹ تک ایسے ہی چھوڑ دیں۔ اس طرح اسٹیک اپنے
جوس کو برقرار رکھتا ہے اور کاٹنے پر خشک نہیں ہوتا۔
مسالوں کو صحیح جگہ پر رکھیں:
اپنے کچن کی شیلف میں موجود مسالا جات کی زندگی
کو طویل بنانے کے لیے انہیں ٹھنڈی اور تاریک جگہ پر محفوظ کریں۔ ان مسالا جات کو
چولہے کے اوپر ذخیرہ کرنا انتہائی غیر مناسب ہے کیونکہ نمی اور گرمی کی وجہ سے ان
کا ذائقہ بدل سکتا ہے جو یقینی طور پر آپ کے پکوانوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔
انڈے اُبل جائیں تو چولہا بند کر دیں:
ابلے ہوئے پرفیکٹ انڈوں کی کلید یہ ہے کہ انہیں
زیادہ نہ پکائیں کیونکہ زیادہ حدت ملنے وہ انتہائی سخت ہوجاتے ہیں اور ان کی
غذائیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آپ کس قسم کے انڈے بناتے ہیں یہ
خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ انڈے مکمل ابلنے سے چند منٹ پہلے چولہا بند کردیں اور
انڈوں کو اسی گرم پانی میں کچھ دیر تک چھوڑ دیں۔ پین یا برتن میں موجود باقی حرارت
انڈوں کو کمال تک پکائے گی۔
نباتات کو نمک کے ساتھ کاٹیں:
نباتات یا جڑی بوٹیوں کو کاٹنے کے دوران کٹنگ
بورڈ پر پھسلنے سے بچانے کے لیے پہلے اس پر تھوڑا سا نمک چھڑک دیں۔ نمک ان جڑی
بوٹیوں کو کٹنگ بورڈ پر پھسلنے اور ہر جگہ اڑنے سے روک دے گا۔
ابلتے ہوئے پاستا کے ساتھ پانی میں نمک شامل
کریں:
کھانا پکانے کا ایک سادہ مگر سنہری اصول ہے کہ
آپ کے پاستا کے پانی میں نمک شامل کرنے سے آپ کا پاستا نرم و ملائم اور زیادہ لذیذ
ہو جائے گا۔
پانی کے ایک بڑے برتن میں تقریبا 1-2 کھانے کے
چمچ نمک ڈالیں اور اسے ہلائیں تاکہ یہ مکمل طور پر تحلیل ہوجائے، اس کے بعد پاستا
ڈالیں اور پھر دیکھیں کہ نمک پاستا میں یکساں طور پر گھل مل جائے گا۔
پاستا ساس بنانے کے لیے پاستا کا بچا ہوا پانی
استعمال کریں:
جس پانی میں آپ نے پاستا کو ابالا ہے اسے
بالکل بھی ضائع نہ کریں کیونکہ یہ ذائقے کو اجاگر کرنے کے لیے حیرت انگیز کام کرتا
ہے۔
پاستا کا بچا ہوا نمکین پانی آپ کے پاستا
ساس میں حیرت انگیز ذائقہ شامل کرے گا اور پانی میں موجود نشاستہ اس کی مستقل
مزاجی کو متوازن رکھنے میں مدد دے گا۔
کاٹنے میں مدد کے لیے پیاز کی جڑ کو برقرار
رکھیں:
کچن کے کاموں میں غالباً پیاز کاٹنا سب سے
زیادہ تکلیف دہ عمل ہے اور بعض اوقات اس عمل سے آپ کو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اس لیے
ہمارا مشورہ ہے کہ پیاز کی جڑ کو قائم رکھ کر اس عمل کو تیز اور منظم بنائیں، سب
سے پہلے اسے چھیلیں پھر اسے افقی طور پر کاٹیں اور پھر عمودی کاٹیں پھر آپ دیکھیں
گے کہ آپ کے پاس بہترین کٹی ہوئی پیاز ہوگی۔
سوال 4 گلہڑ کی اقسام اور روک تھام پر مفصل نوٹ لکھیں۔
ج:
Thyroid Gland گلہڑ (غدود) تھائی
رائیڈ گلینڈ
گلہڑ بڑھے ہوئے تھائی رائیڈ غدود کو
کہتے ہیں۔ تھائی رائیڈ غدود گلے کے نچلےحصےکے سامنےواقع ہوتا ہے۔ یہ سانس کی نالی
کے سامنے لگا ہوتا ہے۔ اس میں پورے کا پورا تھائی رائیڈ غدود بڑھ سکتا ہے۔ یا اس
میں ایک یا ایک سے زیادہ گلٹیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ دایاں
اور بایاں حصہ جو ایک باریک ربن نما چیز سے آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ نارمل تھائی
رائیڈغدود کو نہ ہی دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ
غدود بڑھ جاتا ہے تو یہ گلہڑ کی شکل میں نظر آتا ہے تھائی رائیڈ غدود
ہارمون ٹی تھری ٹی فور پیدا کرتا ہے جو فوراً خون میں شامل ہو کرپورے جسم
میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ہارمون جسم کے افعال کو نارمل رفتار میں رکھتے ہیں۔ ان
ہارمون کی مقدار کم یا زیادہ ہونے سے جسم کے افعال کی رفتار بھی کم یا زیادہ ہو
جاتی ہے۔
گلہڑ کی اقسام
گلہڑ کی دو بڑی اقسام ہیں۔ یعنی گلٹیوں
والا گلہڑ اور بغیر گلٹیوں والا گلہڑ۔ گلٹیوں والے گلہڑ کی مزید دو اقسام ہیں۔ اس
میں غدود کے کسی حصے میں ایک گلٹی، یا پورے کے پورے غدود میں گلٹیاں بن سکتی ہیں۔
ایک گلٹی کینسر کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ بغیر گلٹیوں والے گلہڑ میں پورے کا پورا
غدود سائز میں بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اس کی سطح ہموار رہتی ہے۔اس کی بھی کئی اقسام
ہیں۔ یہ خوراک میں آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پہاڑی علاقوں میں۔
اس کے علاوہ یہ بلوغت کی عمر اور حمل کے دوران بھی واقع ہو سکتا ہے۔
بہت سے کیسوں میں گلہڑتھائی رائیڈ
ہارمون کی مقدار کو متاثر نہیں کرتا یعنی ٹی تھری اور ٹی فور کی مقدار نارمل رہتی
ہے۔ لیکن بعض کیسوں میں ان ہارمون کی مقدار کم یا زیادہ ہو جاتی ہے۔
گلہڑ کی علامات
اس کی پہلی علامت گلے کا سامنے سوج یا
گلٹی کا پیدا ہونا ہے۔ جو سائز میں چھوٹی سے لے کر بہت بڑی بھی ہو سکتی ہے۔ بڑا
گلہڑ ارد کے اعضا جیسے سانس کی نالی اور وریدوں پر دباو ڈال سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے
سانس لینے میں دشواری، کھانا نگلنے میں مشکل اور چہرے پر سوج پیدا ہو سکتی ہے۔ بعض
اوقات آواز کی نس پر دباو کی وجہ سے مریض کی آواز بھی بیٹھ سکتی ہے۔ اگر تھائی
رائیڈ ہارمون کی مقدار بڑھ جائے تو اس سے مریض میں مزید علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
جیسا کہ دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، گرمی برداشت نہ کر سکنا، زیادہ پسینہ آنا، بھوک کی
زیادتی، وزن میں کمی، مزاج میں تبدیلی اور رعشہ یعنی جسم کے اعضا مثلاً ہاتھ وغیرہ
کا کانپنا شامل ہیں۔ تھائی رائیڈ ہارمون کی مقدار بہت ہی کم کیسوں میں کم ہوتی ہے۔
اور اس میں اوپر بیان کی گئی علامات سے متضاد علامات پیدا ہوتی ہیں۔
گلہڑ کی تشخیص
T3, T4, TSH, Thyroid Scan,
Thyroid Ultrasound, FNAC
گلہڑ کی تشخیص عموماً مریض کی حقیقت
پوچھنے اور معائنہ کرنے سے ہو جاتی ہے۔ مزید اطمینان کے لیے خون میں ٹی تھری، ٹی
فور اور ٹی ایس ایچ کی مقدار ناپی جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کو تھائی رائیڈ فنگشن ٹیسٹ یا
ٹی ایف ٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اگر غدود میں ایک گلٹی ہو تو عام سرنج سے اس کے کچھ
خلیے نکال کر خوردبین سے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو ایف این اے سی کہتے
ہیں۔ بعض کیسوں میں تابکار سین (تھائی رائیڈ سکین) اور الٹرا ساوٗنڈ سکین بھی مدد
گار ہوتے ہیں۔
گلہڑ کا علاج
گلہڑ کا علاج اس کی اقسام پر منحصر ہے۔
اگر بغیر گلٹیوں والا گلہڑ ہے تو اس کا علاج عموماً ادویات سے کیا جاتا ہے۔ اگر
تھائی رائیڈ ہارمون کی مقدار نارمل ہو تو ایسے مریضوں کو ٹی فور دی جاتی ہے۔ جو کہ
غدود کے سائز کو کم کر دیتی ہے۔ اگر تھائی رائیڈ ہارمون کی مقدار بڑھی ہوئی ہو
تواس کو کم کرنے کے لیے اینٹی تھائی رائیڈ ادویات دی جاتی ہیں۔ ان کیسوں میں
آپریشن کی ضرورت کبھی کبھار پڑتی ہے۔ بعض کیسوں میں تابکار آیوڈین سے بھی مریض کا
علاج کیا جاتا ہے۔ جس میں مریض کو ایک خاص مقدار میں آیوڈین پلائی جاتی ہے۔
گلٹیوں والے گلہڑ کا علاج صرف اور صرف
آپریشن ہے۔ کیوں کہ ایک بار گلٹیاں بن جائیں تو وہ ادویات سے ختم نہیں ہو سکتیں۔
اس کے علاوہ ان گلٹیوں میں کینسر بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں جلد از جلد آپریشن
کروانا چاہئے۔ آپریشن میں تھائی رائیڈ غدود کا ایک یا دونوں حصے نکال دیئے جاتے
ہیں۔ بعد میں ان کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ تاکہ اگر کینسر ہو تو مزید علاج
کیا جا سکے۔ اگر پورے کا پورا غدود نکال دیا جائے تو بعد میں ایسے مریض کو
ٹی فور یعنی تھائی راکسین استعمال کرنی پڑتی ہے۔
پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو
آیوڈین ملا نمک استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے ان میں گلہڑ کا امکان بہت کم ہو جاتا
ہے۔ جن لوگوں میں مندرجہ بالا علامات جو گلہڑ کے متعلق ہیں پائی جاتی ہیں ان کو
چاہیے کہ اپنے معالج سے رابطہ کریں اور جو علاج یا ٹیسٹ وہ تجویز کریں
وہ لازمی کروائیں تاکہ اس مرض پر جلد از جلد قابو پایا جاسکے۔
سوال 5- درج ذیل امراض کی علامات اور علاج پر مختصر نوٹ
لکھیں۔
1-مليريا 2-
چیچک
ج:
1-مليريا
ملیریا کی علامات
۔1
ملیریا بیماری کا دورانیہ
عام طور پر یہ ملیریا کی
علامات مچھر کے کاٹنے سے تقریبا 18 دن کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہے۔ اس پیراسائیٹ کی
علامات کا ظاہر ہونے کا دورانیہ پلازموڈیم کی اقسام پر منحصر ہوتا ہے۔ دوسری قسم
کے پلاسموڈئیم انفیکشن کی علامات ظاہر ہونے میں وقت لیتی ہیں۔ بعض اوقات اس میں
ایک سال یا اس سے زیادہ کا وقت بھی لگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ علامات مختلف
پیراسائیٹ کی وجہ سے ہر انسان میں مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔
۔2
ملیریا کی ابتدائی علامات
ملیریا کی ابتدائی علامات
بیماری کی شدید نوعیت کی علامات سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس بیماری کے بڑھنے کی شدت کے
ساتھ ساتھ جسم کے مختلف اعضاء بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ مرض اس حالت میں
مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بیماری میں شدید تیز بخار چڑھتا ہے اور اسی کے ساتھ
ہی جسم شدید کپکپاہٹ کا شکار رہتا ہے اور اس میں انسان کو شدید سردی لگتی ہے جس کی
وجہ سے اس بیماری میں متاثرہ شخص اکثر بے ہوش بھی ہو جاتا ہے۔
۔3 مریض
شدید قسم کی کمزوری محسوس کرتا ہے
ملیریا کی بیماری میں مبتلا
ہونے کی وجہ سے مریض میں شدید قسم کی کمزوری آنے لگتی ہے جس کی وجہ سے مریض کو
دوڑے پڑنے کے امکانات بھی ہوتے ہیں اور انسان کا سانس بھی اس حالت میں بگڑنے لگتا
ہے۔ جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان خون کی کمی کا شکار
ہو جاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا انسان کی آنکھیں بھی پیلی پڑ جاتی ہیں جسے جانڈس
کہتے ہیں۔
۔4
جسم کے اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں
اس بیماری کے ابتدائی
مراحلوں میں جب مناسب نوعیت ہوتی ہے تو اس حالت میں جسم کے مختلف اعضاء میں کوئی
کمی نہیں آتی تاہم اگر بیماری کی نوعیت شدت پکڑ لے تو بالخصوص انسان کی قوت مدافعت
میں اچھی خاصی کمی واضع ہونے لگتی ہے۔
۔5
کھانسی زکام بھی علامات میں سے ہے
اس بیماری کی علامات میں سے
ایک علامت کھانسی زکام کی بیماری سے ملتی جلتی ہے اس لیے میلریا ہوتا ہے تو
اس کی تخشیص کرنا بھی قدر مشکل ہو سکتی ہے۔
۔6
جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے
اس بیماری کی علامات میں
متاثر شخص کو ٹھنڈے اور گرم پسینے بھی چھوٹتے ہیں۔ ملریا کا بخار سردی دے کر آتا
ہے اور پسینہ دے کر جاتا ہے اور جب بخار چڑھتا ہے تو انسان پر کپکپی طاری ہو جاتی
ہے اور جب بخار اترتا ہے تو متاثر شخص کو پسینے آنے لگتے ہیں.
ملیریا سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر
- ائیر کنڈشنڈ کمروں
کی عدم موجودگی کی صورت میں مچھر دانی کا استعمال کیا جائے
- مچھڑوں سے بچنے کے
لیے گھر کے دروازوں اور کھڑکیو میں باریک جالی لگی ہوئی ہونی چاہیے
- گھر میں باقاعدگی
سے مچھر مار سپرے کروانا بے حد ضروری ہے
- پانی کے نکاسی کے
نظام کو بہتر بنانا چاہیے
- ملریا سے متاثر شخص
کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے
- اس مرض کا علاج دو
سے تین ہفتوں پر مشتمل ہے
- اس مرض کا علاج
کونین کلرو کوئینین سے کیا جاتا ہے
- اگر مریض جو بار
بار الٹی ہوتی ہے تو اسے اس صورت میں گلوکوز انجیکشن کے ذریعے دیتے رہنا
چاہیے
ملریا کے علاج میں مریض کو دی جانے والی غذائیں
۔1
تازہ پھل اور سبزیاں
تازہ پھل اور سبزیاں ملیریا
کے علاج میں موثر ہیں۔ ملیریا کے مریض کو ایسے پھل اور سبزیاں کھانے چاہئیں جو
وٹامن اے اور سی سے بھرپور ہوں۔ پپیتا، کیوی، لیموں، کینو، انناس، گاجر اور انگور ملیریا کے مریضوں کے لیے بہترین ہیں اور ان کی قوت مدافعت بڑھانے
میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
۔2
تلسی کے بیج کو استعمال کریں
ملریا میں چونکہ
بخار ہوتا ہے تو تلسی کے استعمال سے ہر قسم کے بخار میں شفا مل پائی جاتی ہے۔
روزانہ تلسی کے پتے کھانے سے ملریا کی بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر ملریا ہو
جائے تو بخار آنے پر تلسی کے پتے اور پسی ہوئی سیاہ مرچ کو دو گلاس پانی میں ڈال
کر چائے کی طرح اُبال لیں، جب اس پانی کا چوتھائی حصہ رہ جائے تو اس میں مصری ڈال
کر ٹھنڈا کرنے کے بعد پلائیں۔ اس کے علاہ تلسی کے پتے اور اس کے ساتھ کالی
مرچ کو چبا کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔
۔3
زیرہ
ایک چمچ زیرہ لے کر اسے
اچھے سے پیس لیں پھر اس میں زیرے کے برابر تین گنا زیادہ گڑ ڈال کر اس کی گولیاں
بنا لیں اور جب بھی ملریا کے مریض کو بخار میں سردی محسوس ہو تو زیرے اور گڑُ کی
بنی گولیاں ملریا کے مریض کو کھلائیں اس سے مریض سردی کی شدت میں کمی محسوس کرے
گا۔
۔4
دار چینی
دار چینی کا استعمال ملیریا کی بیماری میں بہت موئثر ہوتا ہے، ایک چمچ دار چینی کا
پاؤڈر لیں اس میں ایک چمچ شہد ڈالیں اور چٹکی بھر کالی مرچ کو گرم پانی میں گھول
کر ہر روز پینے سے ملریا کا بخار آہستہ آہستہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
۔5
کلونجی میں ہر بیماری کا علاج چھپا ہے
ایک چمچ کلونجی لیں اس میں
ایک ہی چمچ لیموں کا رس اور ایک چمچ چینی ڈال کر دونوں کو آپس میں اچھی طرح سے مکس
کرلیں اور پھر دن میں تین سے چار بار اسے استعمال کریں، اس کے استعمال سے بہت جلد
ملریا کا بخار اتر جائے گا۔
۔6
ہلدی اور دودھ جراثیم کش ہیں
ہلدی مچھر کے زہر کی وجہ سے
جسم میں پھیلنے والے پلازموڈیم انفیکشن کو ختم کرتی ہے۔ ایک گلاس دودھ میں ہلدی
ملا کر پینے سے ملیریا کی وجہ سے ہونے والے جوڑوں اور پٹھوں میں ہونے والے درد کو
کم کیا جا سکتا ہے۔
۔7
سیب کا سرکہ کا استعمال کریں
ایک ململ کے کپڑے کی طرح
کوئی باریک کپڑا یا ململ کا ہی ایک کپڑا لیں اسے سیب کے سرکے میں بهگو کر ملیریا کے مریض کے ماتھے پر روز 10 منٹ تک رکھنے سے
ملیریا کے مریض کا بخار کم ہونے میں مدد کر سلگے گا۔
۔8
خالی پیٹ میتھی دانہ دیں
ملیریا کی وجہ سے مریض کا
جسم کمزور ہو جاتا ہے اور اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے میتھی دانہ کھانا ایک خاص
اہمیت رکھتا ہے۔ میتھی دانے اچھے سے استعمال کرنے کے لیے اسے
رات بھر پانی میں بھگو کر رکھیں اور اسے صبح خالی پیٹ کھائیں اسے نہار منہ
پینے سے جسم کو فوری طاقت ملتی ہے۔
۔9
سرسوں کا تیل مریض کو راحت دے گا
سرسوں کا تیل جراثیم کش
جیسی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، ملیریا کے مریض کو دی گئی غذا کو پکانے کے لیے
سرسوں کے تیل کو استعمال کریں تا کہ مریض کی صحت میں بہتری رونما ہو سکے۔ اس تیل
میں پکے کھانے ویسے بھی ہر طرح کی بیماری کو ٹھیک ہونے میں مدد کرتے ہیں، اس لیے کھانا
سرسوں کے تیل میں ہی بنانا چاہیے۔
2-
چیچک/ ویرولا
ویرولا وائرس، جو صرف انسانوں کو متاثر کرتا
ہے، چیچک کے لیے ذمہ دار ہے۔ ویریولا وائرس کو احتیاط سے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام
کی بدولت ختم کر دیا گیا ہے۔ چیچک ایک ممکنہ طور پر مہلک انفیکشن ہے جو انسانی
رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے اور یہ انتہائی متعدی ہے۔ یہ اکثر متاثرہ شخص کے ساتھ
براہ راست رابطے سے یا مریض کے دھپوں سے نکلنے والے سیالوں کے ساتھ رابطے سے
پھیلتا ہے۔ چیچک سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی نمائش کے بعد جلد از جلد
ویکسین لگائی جائے کیونکہ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ چیچک کے 30% کیسز مہلک ہوتے ہیں۔
علامات
عام طور پر، variola
وائرس کے انفیکشن کے 17 دن بعد، علامات ظاہر ہونا شروع ہو
جاتی ہیں۔ انکیوبیشن کی مدت کے بعد، ذیل میں درج عام علامات سامنے آتی ہیں۔
- قے یا
متلی.
- تیز بخار اس کے بعد سردی لگ رہی ہے۔
- شدید سر درد، دوسرے کے بعد جسم کے درد.
- چہرے، ٹانگوں، ہاتھوں، بازوؤں وغیرہ پر پیپ
یا سیال سے بھرے دانے بننا۔
کچھ دنوں کے بعد، جسم میں چپٹے، سرخ دھبے بن
جاتے ہیں، جو جلد کی طرف جانے سے پہلے زبان اور منہ پر شروع ہو سکتے ہیں۔ اکثر،
چہرہ، بازو اور ٹانگیں پہلے متاثر ہوتے ہیں، پھر دھڑ، ہاتھ اور پاؤں۔
بہت سے دھبے ایک دن کے اندر صاف سیال سے بھرے
چھوٹے چھالوں میں بن جاتے ہیں۔ بعد میں چھالوں میں پیپ بھرنا شروع ہو جاتی ہے۔ 8
سے 9 دن کے بعد، خارش بنتی ہے اور آخر میں ٹوٹ جاتی ہے، اور گہرے، گڑھے داغ چھوڑ
جاتی ہے۔ جب خارش ظاہر ہوتی ہے اور خارش کے ٹوٹنے کے بعد کی مدت کے دوران، چیچک
ایک شخص سے دوسرے میں پھیل سکتا ہے۔
ڈاکٹر کو کب دیکھنا ہے؟
اگر آپ کو چیچک کا سامنا ہوا ہے یا آپ کو یقین
ہے کہ آپ کو یہ ہو سکتا ہے تو علاج کے ممکنہ اختیارات تلاش کرنے کے لیے فوری طور
پر ڈاکٹر کو کال کریں۔ ڈاکٹر آپ کو دوسروں کے ساتھ رابطے سے بچنے کے لیے الگ تھلگ
رہنے کی ہدایت کرے گا اور آپ کے ساتھ ویکسینیشن اور علاج کے شیڈول کے لیے کام کرے
گا۔
اسباب
ویریولا وائرس چیچک کا سبب بنتا ہے۔ وائرس دو
مختلف شکلوں میں آتا ہے۔ ویریولا میجر، چیچک کی بیماری کو چلانے والی ایک زیادہ
خطرناک قسم، 30 فیصد سے زیادہ لوگوں کی موت کا باعث بنتی ہے جنہوں نے اسے پکڑا۔
ویریولا مائنر کی ایک کم مہلک قسم نے 1٪ لوگوں کو نقصان پہنچایا جنہوں نے اس کا
معاہدہ کیا۔ ہیمرج اور مہلک چیچک معمول کے تناؤ سے زیادہ تباہ کن تھے۔
بالغوں، خاص طور پر حاملہ خواتین، بچوں کی نسبت
ہیمرجک چیچک سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ لوگوں کو زیادہ شدید علامات کا سامنا کرنا پڑا،
بشمول بخار، تکلیف، سر درد
، اور ان
کے چھالوں اور میوکوسل جھلیوں سے خون بہنا۔ خون میں زہر عام طور پر ایک ہفتے کے
اندر مہلک ہوتا تھا۔
بالغوں کے مقابلے بچوں میں اکثر مہلک چیچک پیدا
ہوتی ہے۔ لوگوں کو چپٹے زخم تھے جو چھالوں کی بجائے جلد کی سطح پر گھل مل جاتے
تھے۔ خون
میں زہر آلودگی اس قسم
کے چیچک کا شکار ہونے والوں میں سے بیشتر کا بھی دعویٰ کیا گیا۔
خطرہ عوامل
چیچک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ تاہم،
ایک شخص کو چیچک لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اگر وہ variola وائرس
یا ایک متعدی چیچک کیریئر کے رابطے میں آجاتا ہے۔ خاص طور پر، جو لوگ ویرولا وائرس
سے نمٹتے ہیں ان میں چیچک لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ احتیاط کے طور پر، ان افراد کو
اکثر حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ویرولا وائرس کو
بائیو ٹیرسٹ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پیچیدگیاں
اگر آپ حاملہ ہیں یا آپ کا مدافعتی نظام کمزور
ہے تو چیچک زیادہ خطرناک اور مہلک بھی ہو سکتی ہے۔
بہت سے لوگ جو چیچک سے صحت یاب ہوئے تھے ان میں
بھی مستقل نشانات تھے اور شاید ناک یا چہرے کے بافتوں کو کھونے سے کافی خرابی بھی
تھی۔ آنکھوں
میں انفیکشن اور
دیگر مسائل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ آنکھوں پر اور اس کے ارد گرد زخم اکثر پیدا
ہوتے ہیں۔ لوگ کبھی کبھار اپنی بینائی کھو دیتے ہیں۔
اگرچہ چیچک کی ویکسین بیماری کو روکنے میں کافی
کارآمد ہے، لیکن اس کے مختلف قسم کے ضمنی اثرات کے بارے میں بھی جانا جاتا ہے، جو
کہ معمولی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ سختی اور
خطرناک بخار جیسے دل یا دماغ کے انفیکشن کو ہلکا بخار۔ مردانہ بانجھ پن کا سبب
بننے کے علاوہ، چیچک کا نتیجہ عورت کے اسقاط حمل یا مردہ بچے کی پیدائش کا سبب بن
سکتا ہے۔
روک تھام
چونکہ چیچک کا کوئی ثابت شدہ علاج نہیں ہے، اس
لیے ویکسینیشن کو بیماری سے بچاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں
چیچک کے خاتمے کے لیے، ڈبلیو ایچ او نے 1796 میں ایڈورڈ جینر کی بنائی ہوئی چیچک
کی ویکسین کا استعمال کیا۔
پہلی نسل کی ویکسین وہ ہیں جو خاتمے کی مہموں
میں استعمال ہوتی ہیں، اور یہ ویکسین ان جانوروں کے لمف یا جلد کا استعمال کرتے
ہوئے تیار کی جاتی ہیں جنہیں حفاظتی ٹیکے لگائے گئے تھے۔ ویکسینیشن کی دوسری اور
تیسری نسلوں کو مٹانے کے آپریشن کے بعد یا اس کے بعد بنایا گیا ہے، اور یہ عصری
سیل کلچر کی تکنیکوں کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔
تشخیص اور علاج۔
دھبے متعدد حالات کی علامت ہیں۔ تاہم، خارش
والے شخص میں چیچک کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ چیچک کی تشخیص کے اہم معیار درج
ذیل ہیں:
- کم از کم 101 ڈگری ایف کا بخار کم از کم ایک
اضافی علامات کے ساتھ، جیسے شدید کمزوری، سر درد، ایک کمر درد، سردی لگ رہی ہے، قے، یا
خوفناک پیٹ میں درد، ددورا شروع ہونے سے ایک سے
چار دن پہلے۔
- جسم کے کسی ایک حصے پر ایسے زخم جو نشوونما
کے ایک ہی مرحلے میں ہوں۔
کسی کو چیچک ہونے کا امکان ہے اگر وہ مندرجہ
بالا تفصیل کے مطابق ہو۔ معمولی تشخیصی معیار پر مشتمل ہے:
- ایک خارش جہاں چہرے اور ہاتھ کے حصے زیادہ
تر گھاووں سے متاثر ہوتے ہیں۔
- وہ زخم جو پہلے منہ میں یا چہرے یا بازو پر
ظاہر ہوتے ہیں۔
- انتہائی بیماری
- ددورا جو آہستہ آہستہ مختلف شکلوں میں بدل
جاتا ہے۔
- پاؤں کے تلووں یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر
نشانات
چیچک کی تشخیص کی تصدیق لیبارٹری ٹیسٹنگ سے کی
جا سکتی ہے، جبکہ دیگر ممکنہ تشخیص جیسے کہ چکن پاکس کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔
علاج
چیچک کے انفیکشن کے لیے، علاج کا کوئی معیاری
طریقہ نہیں ہے۔ اب تک، بیماری کے علاج کی بنیادی شکلیں وبائی امراض کو روکنے کے
لیے شدید حفاظتی ٹیکوں اور انفیکشن کی علامات کو کم کرنے کے لیے معاون تھراپی رہی
ہیں۔ اگر کوئی وبا پھیلتی ہے، تو یہ زیادہ ممکن ہے کہ صحت کی تنظیمیں اینٹی وائرل
ادویات استعمال کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے انفیکشن کو ایک بار پھر پھیلنے سے
روکنے کے لیے ویکسین لگانے پر توجہ دیں۔ تاہم، یہ کچھ علامات کو کم کرنے کے لیے
معاون کردار میں استعمال کیے جائیں گے۔
کیا اور کیا نہیں
ماضی میں چیچک کا علاج مریض کو الگ تھلگ کرکے
علامات کو دور کرنے اور بیماری پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرتا تھا جب تک کہ تمام
خارشیں گر نہ جائیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، سائنسدانوں نے چیچک کی اینٹی وائرل
دوائیں بنائی ہیں چاہے چیچک کو بہت پہلے ختم کر دیا گیا ہو۔ دوسروں سے اس بیماری
کا شکار ہونے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چیچک کا بائیو ٹیرسٹ حملہ
افراد کو وائرس سے بے نقاب کر سکتا ہے۔ تاہم، یہ ناممکن ہے. تاہم، یہاں تک کہ اگر
بیماری پھیل جاتی ہے، ذیل میں احتیاطی تدابیر اس حالت کے علاج میں مدد کر سکتی ہیں۔
کرو |
نہیں |
اگر آپ کو حالت پر شبہ ہے تو علامات کی
نگرانی کریں۔ |
اگر آپ کی حالت ہے تو صحت مند افراد سے رابطہ
کریں۔ |
صحت مند متوازن غذا کھائیں۔ |
مسالہ دار اور تیل والی غذائیں کھائیں۔ |
اپنے ڈاکٹر کی طرف سے مقرر کردہ ویکسین لیں |
ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود دوا لیں۔ |
انفیکشن کو پھیلانے سے بچنے کے لیے خود کو
الگ تھلگ رکھیں |
گھاووں کو پاپ کریں۔ |
کافی مقدار میں سیال پائیں |
گھاووں کو کھرچنا |
ایک بار جب مریض متعدی نہیں رہتا ہے، تو ڈاکٹر
جمالیاتی داغوں کے انتظام کے لیے علاج میں مدد کرے گا اور انفیکشن کی وجہ سے بصارت
کے مسائل کے علاج کے لیے تجاویز دے گا۔
0 Comments