Header Ads Widget

Google ads

بچے کی جسمانی نشوونما، بچوں میں مناسب عادات کے فروغ اور مسائل کے حل کے لیے کن طریقوں اور اطوار کو اپنانا چاہیے۔

 

بچے کی جسمانی نشوونما کے مختلف دور بیان کریں۔


 بالیدگی اور نشو نماآہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ہوتی رہتی ہے ۔ جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی پرورش بھی پروان چڑھتی رہتی ہے لیکن جسمانی نشو نما ایک حد تک جا کر رک جاتی ہے مگر ذہنی ، جذباتی، اور معاشرتی تبدیلیاں زندگی بھر جاری رہتی ہیں اس کے سوچنے، سمجھنے، اُٹھنے بیٹھنے ، ااور خوشی اور غم کے انداز وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں

ابتدا ء میں بچے مختلف اشیاء میں فرق محسوس نہیں کرپاتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی ہے۔ جب بچہ چھوٹا ہو تا ہے تو وہ چھری اور چمچے میں فرق محسوس نہیں کرتا یہی وجہ تھی کہ موسیٰ علیہ اسلام نے انگارے کو منہ میں رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لقنت آئی تھی ۔ جسمانی نشونما تیزی سے ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھتاہے اور ذہن اور حافظہ بھی تیز ہو جاتاہے

عہد بلوغت میں جسمانی بالیدگی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔ اور ذہنی صلا حیتیں بھی نکھر آتی ہیں۔ نصب ا لعین، شوق دلچسپی ، مختلف مضامین کا شوق، جسمانی لحاظ سے پختگی اور مشکل کام کو حل کرنا، تو ایسے میں بچوں کی پسند و ناپسند کا مسلہ، لہٰذا بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے توقعات کیئے جائیں ۔

بالیدگی کی منزلیں

بالیدگی کی چار منزلیں ہیں (۱) طفلی منزل یا طفولیت (۲) بچپن (۳) نو بلوغت (۴) بلوغت

طفلی منزل یا طفولیت

بالیدگی کی پہلی منزل پیدائش سے لے کر پانچ سال کی عمر تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس عمر میں بچے تیز رفتاری سے جسمانی بالیدگی کی عمل سے گذرتاہے ، قد وزن وغیرہ بڑھ جاتاہے بچیاں، بچوں کی نسبت جلدی بڑھ جاتی ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے بچے سبقت لے جاتے ہیں

شروع میں بچے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ان کی ذہنی، جذباتی،اور معاشرتی نشونما کوئی خاص نہیں ہوتی ہے۔ دو تین ماہ کے بعد بچے ادھر اُدھر دیکھنے اور پرکھنے کی عمل سے گذرتے ہیں اور بچے مسکرانے کی کوشش کر تے ہیں جب کہ کوئی بھی عمل اس کو اچھا لگے ۔ اس طرح اگر ہاتھ اس کے سامنے لے جایاجائے اور آہستہ آہستہ ہٹایا جائے تو وہ اس ہاتھ کا پیچھاکرتاہے ، اس طرح بچے ماں کی دودھ کے ساتھ ساتھ ٹھوس غذا بھی کھا لیتا ہے اور پھر سال کے عرصے میں کچھ ٹوٹے پھوٹھے الفاظ بھی اپنے توتلے زبان سے ادا کرتاہے دوسرو ں کے سہارے چلنا ، بولنا ، باتیں کرنا، اور کھانا کھانا بھی سیکھتا ہے، پھر گھر والوں ، محلے والوں اور گاوں والوں ، سے رابطہ ہو تاہے۔اس عمر میں بچوں کو ڈر اور خوف کا احساس ہو تاہے۔ اس لئے ان کو بے جا خوف میں مبتلا نہیں کر نا چاہیے اور ان کی مثبت جذبات کا خیال رکھنا چاہیے لہٰذا بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آئے اور ان کی شخصیت پر اس سے اچھا اثر پڑتا ہے

بچپن کا دور(childhood )

بالیدگی کے ادوار میں بچپن ، نوبلوغت اور بلوغت کو خاصاہمیت حاصل ہے ۔ ان ادوار میں بعض ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ جن کا مطالعہ

والدین اور اسا تذہ کے لئے ضروری ہے ۔ ایک ماہرنفسیات فرائڈ کا قول ہے کہ بچپن کادور آنے والی زندگی کی بنیاد ہے اس لئے اگر اس دور میں تعلیم کی بنیاد مستحکم پڑگئی تو آئندہ تعلیم بہتر ہو گی اور فرد کی شخصیت مثبت قدروں کی حامل ہو گی اور اگر یہی دور تعلیمی لحاظ سے ناقص اور کمزور ہوگی تو آئندہ کی تعلیمی عمارت کمزور ثابت ہو گی ۔ اور یہ دور چھ سے بارہ سال کے عرصے پرمحیط ہو تا ہے۔ اس دور میں طبعی بالیدگی کے بنسبت ذہنی نشو نما تیز ہوتی ہے اور ذہنی لحاظ سے لڑکے اور لڑکیاں زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ اس دور میں اپنے ہم جنس افراد سے دلچسپی لیتے ہیں ان کا حافظہ تیزہوتا ہے اور بہت سی چیزوں کو زبانی یاد کر لیتے ہیں جہاں تک معاشرتی اور جذباتی نشونما کا تعلق ہے پہلے کی نسبت ترقی نظر آتی ہے اور بچے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر معاشرتی تعلقات کو وسیع بناتے ہیں اور اس دور میں بچوں کو تعلیم سے ضرور متعار ف کرا دینا چاہیے بلکہ آج کل تو ڈھائی تین سال کی عمر میں بچوں کو تعلیم سے متعارف کرایا جارہا ہے جیسے کہ ای سی ڈی وغیرہ

نو بلوغت ((adolesence

یہ وہ دور ہے جب انسان بچپن سے گذر کرکر عالم شباب میں قدم رکھتا ہے یہ دور عموماََ تیرہ سال سے اُنیس سال کے عرصے کا دور ہو تا ہے اور لڑکیوں کے لئے یہ دور تیرہ سے سترہ سال کے عرصے پر پھیلا ہوتا ہے ۔ اس دور میں بہت سی طبعی یا جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جسمانی ساخت میں تبدیلی آتی ہے ، جلد ، چہرہ اور جسم کے دوسرے حصوں میں نمایا ں تغیر نظر آتی ہے ۔ اس دور میں بچے اپنے آپ کو کبھی بڑوں میں اور کبھی چھوٹوں میں شمارکرتے ہیں۔

یہ دور معاشرتی نشونما کے لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے ۔ بچپن میں اپنے ہم جنس افراد سے دلچسپی لیتے ہیں لیکن نو بلوغت کے دور میں انسان مخالف جنس میں دلچسپی لینے لگتاہے۔ اور ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور ایک دوسرے کو متاثر کر نے کی خاطر بناو سنگار پر زور دیا جاتاہے۔ اور اچھے اور قابل تحسین کام انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ا س دور میں والدین اور اساتذہ کی بہتر ین رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلوغت (Adulthood)

یہ دور تقریباََ عمر کی پختگی کا دور ہوتا ہے چونکہ جسمانی نشونما تقریباََ رک جاتا ہے۔ اور یہ دور بیس بایئس سال سے چالیس سال تک کے عرصے پر محیط ہوتاہے اور طبعی طو رپر کوئی کمی بیشی رہ بھی جائے تو اس عمر کے ابتدائی دو تین سالوں میں وہ مکمل ہو جاتا ہے اس لئے علٰی ملازمتوں کے لئے عموماََ ۲۵ تا ۲۸ سال کا عمر رکھا جاتاہے اور اس دور کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی وجہ سے فرد کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے اور اپنی خیالات اور باتوں کا اظہار سوچ سمجھ کر کرتاہے اس دور میں تین نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ تعلق رکھتاہے پہلا تقاضا کسی نصب العیں کو اختیار کر ناہوتا ہے۔ دوسرا ازدواجی زندگی کی طرف راغب ہونا ہے یہ تقاجنسی پختگی اور شدت کی وجہ سے ہوتاہے۔ اور تیسرا تقاضا معاشرے میں کوئی اہم مقام اور عزت حاصل کرنا ہو تاہے۔

بچپن کے نفسیاتی تقاضے (psycologocal needs of childhood)

انسانی بالیدگی اپنی مختلف منزلوں میں مخصوص تقاضے رکھتی ہے اگر ان تقاضوں کی تشفی نہ ہو تو بچے کی بالیدگی متاثر ہو تی ہے اور اس کی نشو نما کسی حد تک رک جاتی ہے تعلیمی میدان میں اگر ان نفسیاتی یا قدرتی تقاضوں کی بھر پور تشفی نہ کی جائے تو بچوں کی شخصیت پر بُر ا اثر پڑتاہے

یہ تقاضے کچھ اس طرح سے ہیں (۱) خود نمائی ( (wish for winnsom (۲) تجسس کی خواہش ( (drive for curiosity (۳) تقلید کر نے کی خواہش ( drive for imitation ) (۴) آزادی کی خواہش ( Indipendence) (۵) معاشرتی تعلقات کی خواہش (drive for social relation )

نو بلوغت کے نفسیاتی تقاضے

(۱) عظمت کی خواہش (۲) خوداری ااور عزت نفس کی خواہش (۳) خود مختاری اور نصب لعین کی خواہش

 

بچوں میں مناسب عادات کے فروغ اور مسائل کے حل کے لیے کن طریقوں اور اطوار کو اپنانا چاہیے۔ 

 

مثبت عادات بچوں کی فلاح و بہبود اور مثبت نشوونما کے لیے اہم ہیں۔ ایسی عادات ان کے کردار کو مضبوط کرتی ہیں، جیسے کہ صبر، شکر گزاری اور دوسروں کی خدمت۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہر بچہ اور نوعمر، ابتدائی اسکول، مڈل اسکول یا ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے، یہ ظاہر کرنے اور اس کی وضاحت کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ اس نے کس طرح مثبت عادات پیدا کیں اور کیسے ان پر مسلسل عمل کیا۔

مثبت عادات  بچوں کو اپنے ’کردار کےاہداف‘ حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں، جو انھوں نے اپنے لیے متعین کیے ہوتے ہیں، جیسے کہ دیانت دار شخص ہونا یا ایسا شخص بننا جو دوسروں کے لیے مہربان اور مددگار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی بھی بچہ خود میں مثبت عادات پیدا کیے بغیر بہترین نہیں بن سکتا۔ نقطہ آغاز کے طور پر، بچوں کو عادات کے بارے میں سکھانے کے لیے یہاں پانچ تصورات ہیں، جو کہ ان کی زندگی میں پیداواری مہارتوں اور بامعنی طرز عمل کو بنانے میں ان کی مدد کریں گے۔

تحقیق سے واضح ہے کہ ہمارے 40 سے50 فیصد افعال، عادات کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی اپنی صبح کی عادات ہیں، کھانے اور سونے کے وقت کی عادات بھی الگ الگ ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری زندگی عادات پر چلتی ہے۔ معلمین کو اپنے طلبہ کو یہ سمجھنے کی ترغیب دینا چاہیے کہ ان کی عادتیں ہی اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ وہ کون ہیں اور کس قسم کا انسان بننا چاہتے ہیں۔

زیادہ تر طلبہ آٹھویں جماعت میں نیوٹن کے حرکت کے تین قوانین کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا نصاب ہو جس میں طالب علم مثبت عادات پیدا کرنے کی سائنس کے بارے میں سیکھتے ہوں۔ ہر طالب علم کو ’عادت کے لوپ‘ کے بارے میں سیکھنا چاہیے۔ خواہ یہ عادت اچھی ہو یا بری، عادت کے میکانکس ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہم ایسی مخلوق بنے ہوئے ہیں جو فوری تسکین کی خواہش رکھتے ہیں۔ اشارے ہماری عادات کو جنم دیتے ہیں اور ہماری خواہشیں ہر عادت کے پیچھے محرک قوتیں ہیں۔ یہ عمل روزمرہ عادات کے لیے کافی سیدھا ہے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کرنا شروع کر دیا ہے کہ عادتیں برقرار رہتی ہیں یہاں تک کہ جب ہم انعام کی اتنی قدر نہیں کرتے جتنی ہم نے پہلے کی تھی (یا اس وقت بھی جب انعام دستیاب نہیں ہے)۔ یہ ہم میں سے ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جو مثبت عادات کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان عادات پر مسلسل عمل کرنے کے بعد یہ ہماری شناخت کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایک ناگزیر ’عادت کا اصول‘ اپنایا جاسکتا ہے جیسے کہ ایک طالب علم نے فیصلہ کیا کہ وہ پینٹنگ سیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا ہوم ورک ختم کرتا ہے ۔ طالب علم کے لیے اس نئی عادت یا معمول کو اپنانے کی کلید یہ ہے کہ وہ ہر روز جیسے ہی مطالعہ ختم کرے، اس سرگرمی کو دہرائے۔

دیگر مستحکم اشاروں میں جاگنا یا بستر پر جانا، دانت صاف کرنا، یا کھانا کھانا شامل ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی حرکت جو باقاعدگی سے ہوتی ہے، اسے طالب علم اپنی عادت کا حصہ بناسکتے ہیں۔ محققین سیکھ رہے ہیں کہ عادت کے مستحکم اشارے ہمارے ذہن کو منظم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہی معمول کا بار بار ہونا ہمارے دماغ کو دوبارہ منظم کرتا ہے۔

کسی ایسے شخص سے وابستگی قائم کرنا جسے ہم جانتے ہیں اور اس پر بھروسہ کرنا اکثر وہ ایندھن ہوتا ہے جس کی ہمیں ایک مثبت عادت پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو زیادہ شدت سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اندرونی اور بیرونی توقعات کا کتنا اچھا جواب دیتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ عادات کے حوالے سے قطعی طور پر جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں، لیکن دوسرے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عادات کیوں ضروری ہیں، اس سے پہلے کہ وہ ان کو اپنانےکا سوچیں۔ آخر میں، جب عادات ڈالنے کی بات آتی ہے، تو ہر طالب علم کو مثبت اثبات کی طاقت کے بارے میں جاننا چاہیے۔ مثبت گفتگو کے ساتھ منفی گفتگو کو رد کرنا ایک ایسی عادت ہے جو آسانی سے کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، طلبہ خود کو یاد دلانے کے لیے دہرانے کی مثبت ذہنی عادت پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک نئی مثبت عادت پیدا کرنا انسانی انجینئرنگ کی ایک شکل ہے، جس کے لیے طلبہ کو اپنے بہترین اشارے/ایکشن پیٹرن کو دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ اسکول طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ شکر گزاری کی اپنی روزانہ کی عادت پیدا کریں۔ طلبہ کو ایک ایسے اشارے/ایکشن پیٹرن کی نشاندہی کرنی ہوگی جو کہ ان کے لیے بہترین کام کرے (صبح کے وقت یا سونے سے پہلے)، اور ساتھ ہی اس بات پر تنقیدی طور پر سوچنا ہوگا کہ کیا چیز ان کو شکر گزاری کی عادت پیدا کرنے سے روک سکتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو مثبت عادات کی توانائی اور طاقت کو بروئے کار لانے میں مدد کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

بچوں کی تربیت میں مناسب عادات کے فروغ اور مسائل کے حل کے لیے کئی طریقے اور اطوار کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اہم نکات کو زندگی میں شامل کرنا مددگار ثابت ہوتا ہے:

1.      مثال آموزی کریں: بچوں کے لئے بڑے اور چھوٹے مسائل کے حل کے لئے ان کو مثالیں دکھائیں۔ ایسا کرتے وقت، ان مثالوں کو ان کی سمجھ کی سطح پر مناسب طریقے سے پیش کریں تاکہ وہ ان سے مشکلات کا حل سیکھ سکیں۔

2.      صبر اور تاثر کا مظاہرہ کریں: بچوں کو صبر کرنے اور دوسروں کے ساتھ تاثر کرنے کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ گھبرانے کی بجائے مشکل حالات میں آرام سے کام لیا جائے اور دوسرے لوگوں کی جگہ رکھ کر ان کے احساسات کا خیال رکھا جائے۔

3.      مثبت تربیت: بچوں کی تربیت میں مثبتی انداز رکھیں۔ ان کو مثبت خوابوں اور اہمیت دینے والے مقاصد دکھائیں تاکہ وہ خود کو قابو کرنے کا راستہ ڈھونڈ سکیں۔

4.      مشترکہ فیصلوں کی اجازت دیں: بچوں کو کچھ فیصلوں کو اپنے طور پر کرنے کی اجازت دیں۔ انہیں احساس دلانے کی کوشش کریں کہ ان کی رائے اور فیصلے معقولیت کے ساتھ کرتے ہیں۔

5.      تربیتی نمونے قائم کریں: بچوں کے لئے انسانی اخلاقیات، جیسے کہ ایمانداری، محبت، احترام، اور تعاون، کو تربیتی نمونے کے طور پر دکھائیں۔ اپنے کردار کو ان قیمتوں کے مطابق چلنے کا مظاہرہ کریں تاکہ بچے بھی انہیں اپنائیں۔

6.      سیکھنے کی ترغیب دیں: بچوں کو سیکھنے کی ترغیب دیں۔ ان کی دلچسپیوں کی تعقیب کریں اور ان کو جدید علوم اور مہارتوں کی طرف رجحان دیں۔

7.      وقت کی اہمیت: بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت کو سمجھائیں۔ ان کے ساتھ کھیلنا، بات چیت کرنا، اور سبق سکھانے کے لئے وقت دینا ان کی جسمانی، عقائدی، اور روحانی ترقی کے لئے اہم ہوتا ہے۔

8.      محدودیتوں کو سمجھائیں: بچوں کو محدودیتوں کو سمجھانا اور ان کی پیروی کرنا سکھانا بہتر ہوتا ہے۔ ان کو بتائیں کہ کس طرح محدودیتوں کے باوجود بہت سارے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

9.      قدرت کے ساتھ وابستگی: بچوں کو قدرت کے ساتھ وابستگی کی ترویج دیں۔ ان کو پیدائشی حسن کی قدر کرنے کے لئے جنگلوں میں جانے کی اجازت دیں اور ان کو پیدائشی علوم کا علم حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔

مناسب عادات کے فروغ دینے کے لئے مثبت اور تعلیمی تربیتی اصولوں کو اپنانا ضروری ہوتا ہے تاکہ بچوں کو صحیح راہ پر رہنے میں مدد مل سکے۔

 

Post a Comment

0 Comments